‘‘شنیا’’ زبان کی صوتی مشکلات

لکھاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر

میرے ایک کوہستانی دوست ہیں۔ شاید ہم دو سال، ہم جماعت بھی رہے لیکن اس دوران کوئی زیادہ تفصیلی تبادلہء خیال کی نوبت نہیں آ سکی۔ پچھلے سال کوئی سولہ سال بعد فون پر ان سے بات ہوئی اور میں نے ‘‘شنیا’’ میں بات کی توان کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور کہنے لگے ‘‘ارے ظالم تم نے یہ زبان بھی سیکھ لی ہے’’۔ میں نے ان کو بڑی مشکل سے یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ میری مادری زبان ہے۔ اس میں ان کی حیرت کی وجہ شاید یہ تھی کہ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو ‘‘شنیا’’ سیکھ کر بولتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک پر میں اس تحریر میں بات کرنا چاہوں گا۔


زبانوں میں اختلاف تو ایک قدرتی سا امر ہے اور ہر زبان کا اسلوب، الفاظ کی بناوٹ تو مختلف ہوتی ہی ہے لیکن اس لحاظ سے سب سے بڑی مشکل صوتی نظام ہے اور آواز سے ہی آدمی پہچان جاتا ہے کہ یہ زبان اس کی اصلی زبان نہیں۔ اسی لئے اس وقت مقامی اور اہل زبان لوگوں سے زبان سیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مشکل کی وضاحت کے لئے یہی کہنا کافی ہوگا کہ بہت سے پاکستانی لوگ بڑی اچھی انگریزی بولتے ہیں لیکن انگریز ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے۔


بہر حال بات ‘‘شنیا’’ کی ہو رہی تھی۔ یہ زبان تا حال ‘‘بولی’’ کے درجے میں ہے اور دریائے سندھ کے پار واقع کوہستان سے شروع ہو کر گلگت اور چترال تک بولی جاتی ہے جبکہ آزاد کشمیر میں بھی چند گاؤں میں اسی کا رواج ہے اور اس کے کم وبیش نو لہجے ہیں۔ مثلاً پالس اور جلکوٹ کا لہجہ، داریل تانگیر کا لہجہ، چلاس کا لہجہ، گلگت کا لہجہ، استور کا لہجہ اور پھولاوئی کا لہجہ وغیرہ۔ ان علاقوں کے مفردات اور الفاظ کی ادائیگی میں واضح فرق ہے لیکن اس کے باوجود لوگ ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی نشریات پر گلگت کا لہجہ چھایا ہوا ہے کیونکہ اسٹیشن گلگت میں ہے۔ 


اس زبان میں کم از کم چھ مخصوص آوازیں ہیں مثلاً سر، بھائی، تین، پھٹنا، اخروٹ، بچا ہوا کھانا، ان تمام الفاظ کے لئے شنیا میں ایسی مخصوص آوازیں ہیں جن کو میں کسی طرح یہاں نہیں لکھ سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک اس کا کوئی متفقہ اور رائج رسم الخط بھی نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل اکادمی ادبیات کی ایک کتاب ‘‘شینا زبان وادب’’ کے نام سے ملی۔ اس کتاب میں بہت اچھے مضامین ہیں اور یہ کمپیوٹر پر ٹائپ کی گئی ہے لیکن مخصوص حروف دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لکھنے کے بعد اضافی کام (یعنی اضافی نقطے اور علامتیں وغیرہ) ہاتھ سے کیا گیا ہے۔ اس لئے اہل زبان کے لئے بھی اسے پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔


یہاں یہ بات بھی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خود لفظ ‘‘شنیا’’ بھی یہاں اپنی درست صوتی حالت میں نہیں ہے کیونکہ اس کے شروع میں خالص ش نہیں بلکہ ش کی وہ آواز ہے جو ‘‘سر’’ کے شنیا ترجمے میں ہے۔ اسی طرح اکثر اس لفظ کو ‘‘شی نا’’ لکھا جاتا ہے حالانکہ درست تلفظ ‘‘شین یا’’ کے قریب قریب ہے جبکہ بعض لہجوں میں سیدھا سیدھا ‘‘شنا’’ بھی ہے۔


اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس زبان کو لکھنے کو آسان بنانے کے لئے زبان کے علوم سے واقف لوگوں کو مل بیٹھ کر ایک ایسا متفقہ رسم الخط بنانا اور اپنانا چاہئے جس کے مطابق کمپیوٹر پر حروف ترتیب دئے جائیں کیونکہ اس وقت جتنے لوگ لکھ رہے ہیں وہ اندازوں سے لکھ رہے ہیں۔ اس بارے میں موقع ملا تو ان شاء اللہ کچھ اور باتیں رسم الخط اور صوتی اشتراک کے بارے میں بھی قلمبند کرنے کی کوشش کروں گا۔ چونکہ میں لغت کے علوم سے ناواقف ہوں اس لئے جو کچھ لکھا ہے اس میں کوئی مخصوص اصطلاح استعمال نہیں کر سکا۔ (ھمدردیات)