انُہ بیاک ݜݨیآ چولئ اتھلرہ کار ہن

۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «بے زباں جانور» ثبت شده است

کچھ زکر شنیا رسم الخط کا

کچھ ذکر رسم الخط کا (1/2)

لکهاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر

رسم الخط سادہ لفظوں میں ان آڑی ترچھی لکیروں کا نام ہے جن کے ذریعے ہم کوئی زبان لکھتے ہیں۔ اس لئے بڑی آسانی سے آپ کچھ شکلیں مقرر کر کے ایک نیا رسم الخط ایجاد کر سکتے ہیں۔ جن دنوں میں سکول میں سکاؤٹ تھا، ردی والے سے (FROM CODES TO CAPTAINS) نامی ایک کتاب ملی۔ (سکاؤٹنگ ایک نہایت مفید مشغلہ ہے جس میں کئی اور چیزوں کے ساتھ پیدل سفر کے لئے کچھ اشارے بھی سکھائے جاتے ہیں)۔ اس کتاب میں بحری جہازوں کے اشاروں اور  خود اشارے بنانے کا بھی تذکرہ تھا۔ اس میں میری دلچسپی اتنی بڑھ گئی کہ بعد میں میں نے اشاروں میں ڈائری لکھنا شروع کی اور اس کے بعد اردو اور انگریزی کے لئے دو رسم الخط بھی ایجاد کر ڈالے جن کے حروف تھجی سیکھ کر کوئی بھی آدمی انہیں لکھ اور پڑھ سکتا تھا البتہ بعد میں وہ چیزیں چھوٹ گئیں۔

غلام رسول ولایتـی

شنیا زبان کے بارے میں کچھ کتابیں

شنیا زبان کے بارے میں کچھ کتابیں
لکھاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر

کچھ عرصہ قبل میں نے دو چار تحریریں شنیا زبان کے حوالے سے لکھی تھیں۔ ان میں اکثر باتیں ذاتی مشاہدے اور تجربے پر مبنی تھیں۔ ان تحریروں کا مقصد شنیا زبان کو اچھے انداز سے تحریر میں لانے کے لئے کچھ تجاویز پیش کرنا تھا، مگر ہر بار یہاں تک پہنچنے سے قبل ہی بات دوسری طرف نکل جاتی رہی۔ اس بار بھی یہی خدشہ تھا اس لئے تحریر کا عنوان ہی بدل دیا تاکہ اس کے اندر رہ کر بات کی جا سکے۔

شنیا زبان تا حال کچھ تحریری کام ہونے کے باوجود لکھنے پڑھنے کی زبان نہیں بن سکی البتہ اب اس کی ترویج کے لئے کسی نہ کسی شکل میں باقاعدہ کام ہو رہا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ ان کوششوں سے اس زبان کو ان شاء اللہ ترقی ملے گی اور شاید اگلی نسل اسے لکھنے پڑھنے کے قابل ہو جائے گی۔

غلام رسول ولایتـی

‘‘شنیا’’ زبان کی صوتی مشکلات

‘‘شنیا’’ زبان کی صوتی مشکلات

لکھاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر

میرے ایک کوہستانی دوست ہیں۔ شاید ہم دو سال، ہم جماعت بھی رہے لیکن اس دوران کوئی زیادہ تفصیلی تبادلہء خیال کی نوبت نہیں آ سکی۔ پچھلے سال کوئی سولہ سال بعد فون پر ان سے بات ہوئی اور میں نے ‘‘شنیا’’ میں بات کی توان کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور کہنے لگے ‘‘ارے ظالم تم نے یہ زبان بھی سیکھ لی ہے’’۔ میں نے ان کو بڑی مشکل سے یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ میری مادری زبان ہے۔ اس میں ان کی حیرت کی وجہ شاید یہ تھی کہ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو ‘‘شنیا’’ سیکھ کر بولتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک پر میں اس تحریر میں بات کرنا چاہوں گا۔

غلام رسول ولایتـی

‘‘ شنیا’’ اور اس کی پڑوسی زبانیں

‘‘ شنیا’’ اور اس کی پڑوسی زبانیں

لکھاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر 

‘‘ شنیا’’ کی پڑوسی زبانوں کے ساتھ اس کا صوتی اشتراک ہے۔ کوہستان میں دریا کی ایک جانب شنیا اور دوسری جانب کوہستانی یا ‘‘کھلچیا’’ زبان بولی جاتی ہے۔ ان دونوں زبانوں میں آوازوں کا کوئی فرق نہیں۔ اس لئے وہ ایک دوسرے کی زبان آسانی سے سیکھ سکتے ہیں البتہ صوتی آہنگ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ متکلم کی اصلی زبان کون سی ہے۔

غلام رسول ولایتـی

میں کہ ایک بے زبان جانور ہوں

’’میں کہ ایک بے زبان جانور ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

لکھارو:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر

کہتے ہیں کہ مردم شماری کے دوران سرکاری ٹیم ایک ایسے صاحب کے پاس پہنچی جس نے کئی کتابیں لکھی تھیں، برسوں سے خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے، بڑے اچھے شاعر بھی تھے اور اپنے علاقے کے مانے جانے عالم بھی۔ مردم شماری والوں نے جب ان سے تعلیم کا پوچھا توانہوں نے یہ ساری باتیں بتائیں، مگر وہ بولے کہ مولانا آپ کی تعلیم کیا ہے؟ پرائمری، میٹرک، ایف اے، بی اے؟؟؟ 

غلام رسول ولایتـی