کچھ شینا زبان اور اس کے رسم الخط کے متعلق
(رازول کوہستانی)
پچھلے چند دنوں سے شینا بیاک میں شینا رسم الخط کے حوالہ سے بحث چل رہی ہے اس حوالہ سے شینا زبان کے متعلق کچھ کہنے کی کوشش کی جاتی ہے:
میری چند شینا کتابیں اور ایک لُغت اضافی حروف میں دو زبر کی علامات کو استعمال کرتے ہوئے 2004 سے پہلے شائع کی گئی تھیں۔ چونکہ کہ اُس وقت گلگت کی شینا زبان کے لکھنے والے زیادہ تر انہی علامات کا استعمال کرتے تھے اور انہی علامات کو اختیار کیا گیا جو کہ کافی مشکل اور تکلیف دہ عمل تھا جس میں املا کی غلطیوں کے زیادہ سے زیادہ امکانات بھی موجود تھے۔
2004 کے بعد ہم نے ان علامات کو ترک کر دیا اور چار نقطوں والی علامات کو اپنایا جن کے عربی رسم الخط میں یونی کوڈ بھی دستیاب تھے اور آسانی سے کی بورڈ ڈویلپ کیا جا سکتا تھا؛
گو گہ چار نقطوں کی علامات کو سب سے پہلے غالباً جناب محمد امین ضیاء نے استعمال کیا اور اپنا شعری مجموعہ “سان“ انہی علامات کے ساتھ شائع کیا۔ اُن کے بعد غالباَ اکبر حسین اکبر نے اپنی کتاب ”سومولو رسول“ انہی چار نقطوں والی علامات کے ساتھ شائع کی؛
کوہستان ہمیشہ گلگت کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے۔ گزشتہ سال گلگت کے احباب نے چار نقطوں والی علامات کو اپناتے ہوئے اسکول میں پڑھانے کے لئے کتابچے بھی تیار کئے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بار بار مانگنے کےباوجود ان کتابچوں کےنمونوں کے چار پانچ صفحات بھی نہیں مل سکے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ ان کتابچوں میں گلگت کی شینا لکھنے میں کون کون سی فنی خوبیاں موجود ہیں جنہیں شینا کے دوسرے لہجوں والے اپنا سکتے؛
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ڈاکٹر محمد شجاع ناموس اور بابا چلاسی کے رسم الخط کو خاطر خواہ پزیرائی نہیں مل سکی تھی جسے آگے بڑھایا جا سکتا؛
اس دوران گُریز، دراس اور کارگل کے لکھنے والے احباب نے اپنے شینا لہجے میں تحقیقی اور اشاعتی کام میں خاطر خواہ اضافہ کیا جن میں:
1. احمد جوان کی کتاب حمد، نعت اور قصائد کا مجموعہ "ڇلو" 1989 میں شائع ہوئی؛
2. رضا امجد کے دو شعری تصنیفات منظر عام پر آئیں؛
3. احمد جوان کا دوسرا شعری مجموعہ شائع ہوا؛
4. رضا امجد کی کتاب ”جموں و کشمیر میں درد ݜیݨ“ شائع ہوئی؛
5. رضا امجدکا شعری مجموعہ ”چنالو تکیار“ شائع ہوا؛
6. شفیع ساگر نے امین ضیاء کے حروف تہجی کو دراسی لہجے میں استعمال کرکے ایک کتابچہ شائع کیا؛
7. شفیع ساگر کی کتاب "ݜیݨا لوک ادب " منظر عام پر آئی جس میں اہم لوک گیت و ادب شامل ہے؛
8. مختار زاہد بڈگامی کی ایک اہم کتاب "تاریخ ݜیݨا زبان و ادب“ شائع ہوئی؛
9. چکٹ صاحب کی کتاب "گلستان ݜیݨا" شائع ہوئی؛
10. پُݜوٰں بآغ گلستان سعدی کا ترجمہ کیا ہے جو کچھ ماہ پہلے شائع ہوئی؛
11. سیرتِ رسول اکرم ؐ سید سلیمان ندوی کی کتاب کا شینا ترجمہ مکمل ہوا یا ہونے والا ہے؛
12. جناب امجد رضا امجد صاحب کی کتاب جس کا نام غالبا تعلمیات اسلامی جلد ۱ ہے وہ مکمل ہو چکی ہے؛
13. محمد شفیع ساگر کی کتاب ”شینا رسم الخط“ شائع ہوئی؛
14. شیخ غلام احمد شیخ کی کہاؤتوں کی کتاب ”مَلیکہ“ شائع ہوئی؛
15. مسعود سموں کی کتاب ”شںا محاؤرآے گہ مثالے“ 2016 میں شائع ہوئی؛
16. مسعود سموں کی گریزی شینا گرائمر کی کتاب 2018 میں شائع ہوئی؛
17۔ محمد رمضان صاحب نے شینا زبان کے گریزی لہجہ میں آسان شینا قاعدہ شایغ کیا۔
18. اس کے علاوہ ”جِلے زہراء“، ”چِنالو تِکیار“، ”مختصر تاریخ شنا زبان وادب“ ، ”گلستان ݜنا“، اور ”بِڙون“ شامل ہیں۔
اسی طرح گلگت ریجن میں شینا زبان کے متعلق اردو اور شینا میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان مین سر فہرست:
1. ڈاکٹر محمد شجاع ناموس کی صغیم کتاب ”گلگت اور شینا زبان“ جو 1956 میں شائع ہوئی؛
2. محمد امین ضیاء کا شعری مجموعہ ”سان“ جو 1974 میں شائع ہوا؛
3. محمد امین ضیاء کی کہاؤتوں کی کتاب ”سوینو موریئے“ جو 1978جو میں شائع ہوئی؛
4. محمد امین ضیاء کی کتاب ”شینا قاعدہ اور گرائمر“ 1976جو میں شائع ہوئی؛
5. محمد امین ضیاء کی کتاب ”شینا اُردو لُغت“ 2010جو میں شائع ہوئی؛
6. اکبر حسین اکبر کی کتاب ”سومولو رسول“ جو 1980 میں شائع ہوئی؛
7. اکبر حیسن اکبر کی کتاب ”اُردو اور شینا کے مشترکہ الفاظ“ 1992میں شائع ہوئی؛
8. عبدالخالق تاج کا گلگتی شینا زبان کا قاعدہ ”شینا قاعدہ“ 1989میں شائع ہوا؛
9. نصیر الدین چھلاسی کا شعری مجموعہ ”ذاد سفر“ شائع ہو (اشاعت تاریخ نہیں)؛
10. رحمت عزیز چترالی کا ”شنا قاعدہ“ جو غالباً ِ2017 یا کچھ اس سے قبل شائع ہو؛
11. شینا زبان کے گلتی لہجہ میں بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے کتابچے تیار کئے گئے ہیں جو مرکزی حکومت کی منظوری کے لئے التوا میں پڑے ہیں؛
12 عبدالخالق تاج صاحب نے شینا زبان میں نظم و نثر کی ایک کتاب اکادمی ادبیات کے تعاون سے شائع کی جس میں شمالی پاکستان کے شعراء، ادباء اور محقین کے مضامین شامل ہیں۔ (سال اشاعت یاد نہیں)
12. شکیل احمد شکیل صاحب نے بھی اس سلسلے میں بہت فنی کوششیں اور کام کیا ہے لیکن اُن کی کوئی بھی طبع شدہ کتاب یا مواد دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
انڈس کوہستان میں میں انفرادی طور پر کئی سالوں سے اس فیلڈ میں کام کر رہا ہوں اور اس کا حاصل یہ ہے:
1 مولانا ضیاء المرسلین کوہستانی مرحوم نے ”قاعدہ کوہستانی مصدر حروف“ کا کتابچہ شائع کیا؛
2 رازول کوہستانی/رُتھ لیلی شمٹ نے ”شینا متلہ“ 1998 میں کوہستانی شینا کہاؤتیں شائع کیں؛
3 رازول کوہستانی/رُتھ لیلی شمٹ نے ”شینا متلہ“ رسم الخط کی تبدیلی اور اضافہ کےساتھ 2018 میں اشاعت دوئم کے لئے کتاب مکمل کی؛
4 رازول کوہستانی/رُتھ لیلی شمٹ نے کوہستانی شینا زبان کا ”شینا قاعدہ“ 1996 میں شائع کیا؛
5 رازول کوہستانی ”بُنیادی شینا کوہستانی اردو لُغت“ 1999 میں شائع ہوئی؛
6 رازول کوہستانی ”شینا کوہستانی اُردُو لُغت“ جو کہ تین جلدوں میں ہے 2018 میں چار نقطوں والی اضافی علامات اور مصوّتی اعراب کے ساتھ مکمل کی جو اشاعت کے لئے تیار ہے؛
7 رازول کوہستانی ”کوستان دہ ادویاتی گوڑیو روایتی استعمال“ 1998 میں شائع کی؛
8 رازول کوہستانی نے ملک عبدالرؤف مرحوم کی تبلیغی کتاب ” شینا کوہستانی تبلیغى کتابچہ“ 2018 میں مکمل کیا۔
ان کے علاوہ بھی کئی احباب ایسے ہوں گے جنہوں نے شینا زبان پر کام کیا لیکن مجھے اُن کا کام دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
ان تمام حوالوں کا مقصد یہ تھا کہ شینا زبان میں شینا کے متعلق اردو اور شینا زبان میں مقامی سطح پر خاطر خواہ کام ہوا ہے۔ شینا زبان کے متعلق جو تحقیقی کام دوسری زبانوں (انگلش، جرمن وغیرہ) میں ہوا ہے وہ اس سے الگ اور بہت کارآمد اور تکنیکی نوعیت کا ہے۔
ہمارے بہت سے دوست یہ خیال کرتے ہیں کہ شینا زبان کا مسلہ صرف اضافی حروف کی اشکال کا ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ گریز، دراس، کارگل، گلگت اور کوہستان میں الگ الگ اضافی حروف سے لکھا جا رہا ہے جو کہ شینا زبان کے لئے سود مند نہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ کوہستان اور گلگت ایک ہی پیج پر ہیں پہلے دونوں ہموار دو زبر والی علامت کے ساتھ شینا زبان کی اضافی مُصمّتی آوازوں کو لکھتے تھے اور آج کل چار نقطوں کے اضافہ سے اضافی حروف لکھے جا رہے ہیں جن کے یونی کوڈ بھی دستیاب ہیں۔ جبکہ گریز میں اضافی حروف کو الگ طریقہ سے لکھا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جناب مسعود سموں اور دراس کارگل کے لکھنے والے اپنے لہجہ کے فروغ میں موثر کام کر رہے ہیں۔
شینا زبان میں تحقیقی اور تخلیقی کام کرنے والے احباب کا ایک مسلہ یا رکاوٹ یہ بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ یا تبادلہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ اپنے اپنے دائرہ میں مقید رہتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا اُن کی زبان کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچتا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی ایک لہجہ کو محض تعلیمی سطح پر رائج کرنے سے اس زبان کا مسلہ حل ہو جائے گا تو یہ ایک بڑی غلط فہمی ہو گی۔ جب تک مختلف لہجوں کے حامل افراد میں مکالمہ نہیں ہو گا تب تک بہتر اور پائدار فنی بنیاد اس زبان کو نہیں مل سکے گی۔
میری نظر میں اصل مسلہ شینا زبان کی اضافی مصمّتی آوازوں کے قائم حروف کی اشکال کا نہیں بلکہ اصل مسلہ شینا زبان کے صوتی آہنگ اور صرفی جوڑوں کو درست اور فنی طریقوں سے سمجھنا اور لکھنا ہے جو کہ عام آدمی کے لئے کافی مشکل کام ہے۔ مصوّتی آوازوں کی سُروں اور تانوں کو اُن کی حقیقی تان یا سُر میں لکھنا یا ظاہر کرنا اور سمجھانا ایک مشکل امر ہے اور اسے حل ہونے میں ایک عرصہ لگے گا۔ شینا زبان کے الفاظ کی تان اور سُر کو Speech Analyzer پر ہی درست طریقہ سے دیکھا اور جانچا جا سکتا ہے اسے سمجھے اور جانے بغیر شینا الفاظ پر درست اعراب لگانا شاید ممکن نہ ہو اور یہی وہ مشکل کام ہے جس کا شینا زبان بولنے اور لکھنے والوں کو سامنا ہے۔ شینا زبان کی علّی آوازیں عموماً چار اقسام کی تان یا سُروں کی حامل ہیں یعنی الفاظ میں علّی آواز کا کوتاہ سُر، ہموار سُر، طویل درُوں سُر اور طویل برُوں سُر۔ اِن سُروں کو سمجھ کر اعراب لگانے سے ہی درست طور پر لفظ لکھا جا سکتا ہے۔
شینا زبان میں لکھنے والے کسی بھی لہجہ سے تعلق رکھتے ہوں انہیں رسم الخط میں جدّت، دستیاب فنی اور تکنیکی مہارت، لسانیات سے متعلق ٹولز و تکنیک اور جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا بصورت دیگر رسم الخط میں بے شمار فنی اغلاط کا امکان موجود رہے گا۔
کیا شینا زبان کے تمام لہجوں والے کسی ایک لہجہ یا رسم الخط پر متفق یا قائم ہو سکیں گے یہ کہنا قبل از وقت اور کافی مشکل کام ہے۔ کیوں کہ زمینی اور جغرافیائی بُعد نے شینا زبان کے لہجوں میں کئی ایسی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں جو بڑی مشکل سے دور ہو سکیں گی۔