‘‘ شنیا’’ اور اس کی پڑوسی زبانیں
لکھاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر
‘‘ شنیا’’ کی پڑوسی زبانوں کے ساتھ اس کا صوتی اشتراک ہے۔ کوہستان میں دریا کی ایک جانب شنیا اور دوسری جانب کوہستانی یا ‘‘کھلچیا’’ زبان بولی جاتی ہے۔ ان دونوں زبانوں میں آوازوں کا کوئی فرق نہیں۔ اس لئے وہ ایک دوسرے کی زبان آسانی سے سیکھ سکتے ہیں البتہ صوتی آہنگ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ متکلم کی اصلی زبان کون سی ہے۔
اسی طرح گلگت بلتستان میں اس کی پڑوسی زبانوں میں بلتی، بروشسکی اور کھوار (چترالی) ہیں۔ ان زبانوں میں بھی شنیا کی اکثر آوازیں موجود ہیں البتہ صوتی آہنگ کا فرق اسی طرح ہے اور آزاد کشمیر میں اس کا ساتھ ہندکو اور کشمیری کے ساتھ ہے۔ یہاں کشمیری کا تلفظ شنیا کے قریب تر جبکہ ہندکو اس سے بالکل جدا ہے۔ اس لئے ہندکو بولنے والوں کے لئے اس کا سیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
شنیا بولنے والوں کا پشتونوں سے قریبی ثقافتی تعلق ہے لیکن زبان کے لحاظ سے پشاور اور گرد ونواح کی زبان میں شنیا کی ایک آواز اور وزیرستان اور کوئٹہ اور قندہار کی پشتو میں شاید چار یا پانچ آوازٰیں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے ان علاقوں کے پشتونوں کے لئے شنیا سیکھنے میں صوتی دشواری بہت کم ہے۔ باقی رہی اردو، پنجابی اور اس کی بہنیں، تو ان کا شنیا کی مخصوص اصوات کے ساتھ کوئی اشتراک نہیں۔
بین الاقوامی سطح پر چینی زبان میں شنیا کی اکثر آوازیں اور روسی میں تین آوازیں ہو بہو موجود ہیں جبکہ انگریزی میں کوئی آواز نہیں، باقی کا مجھے علم نہیں البتہ فونیٹکس میں اس کو لکھنے کے لئے طرح طرح کی مرکب شکلیں موجود ہیں لیکن جب تک اہل زبان سے ان کو نہ سیکھا جائے، خود سے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ اسی صوتی دشواری کی وجہ سے ‘‘شنیا’’ کے پڑوسی ایک دم پہچانے جاتے ہیں کہ وہ اہل زبان نہیں ہیں اور مزید لطف کی بات یہ ہے کہ عام طور پر گلگت بلتستان کا صوتی آہنگ اردو بولتے وقت پہلے نہیں تو دوسرے جملے میں بولنے والے کا پورا پتہ بتا دیتا ہے اور اچھی بات یہ ہے شنیا بولنے والے کے لئے مذکورہ بالا زبانوں میں سے کسی زبان کے تلفظ میں کوئی مشکل نہیں۔ (ھمدردیات)