’’میں کہ ایک بے زبان جانور ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

لکھارو:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر

کہتے ہیں کہ مردم شماری کے دوران سرکاری ٹیم ایک ایسے صاحب کے پاس پہنچی جس نے کئی کتابیں لکھی تھیں، برسوں سے خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے، بڑے اچھے شاعر بھی تھے اور اپنے علاقے کے مانے جانے عالم بھی۔ مردم شماری والوں نے جب ان سے تعلیم کا پوچھا توانہوں نے یہ ساری باتیں بتائیں، مگر وہ بولے کہ مولانا آپ کی تعلیم کیا ہے؟ پرائمری، میٹرک، ایف اے، بی اے؟؟؟ تو مولانا بولے ان میں سے تو کوئی سند میرے پاس نہیں۔ مردم شماری والوں نے کہا: اچھا ان پڑھ لکھ دو۔


اس میں غلطی مردم شماری والوں کی قطعا نہیں تھی بلکہ ان بزرگ مہروں کی تھی جنھوں نے فارم ایسا ترتیب دیا تھا جس میں مولانا کی تعلیم کا اندراج نہیں ہو سکتا تھا۔ اس بار بھی مردم شماری شروع ہو چکی اور محدود اندازے کے مطابق پاکستان میں ستر زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن مردم شماری کے فارم میں صرف نو زبانوں کا نام ہے اور باقی سب کو ’’دیگر‘‘ کے خانے میں ڈال دیا گیا ہے جس کا نمبر صفر ہے۔


مجھے اس بات سے نہایت کوفت ہوئی ہے کیونکہ اس میں کوہستان سے لے کر سوست تک تقریبا 500 کلو میٹر کے علاقے میں بولی جانے والی شینیا، وادی چترال اور گلگت کے مغربی علاقے میں سینکڑوں کلو میٹر کے علاقے میں بولی جانے والی چترالی، وادی سکردو اور بلتستان کی زبان بلتی اور اسی طرح کی دیگر علاقائی زبانوں کا اندراج بھی گوارہ نہیں کیا گیا۔ 


اس طرح کئی زبانیں جاننے کے باوجود مردم شماری والے میری زبان کا نام (دیگر) لکھیں گے اور آئندہ مجھے اپنا تعارف ’’من کہ ایک بے زبان جانور ہوں‘‘ سے کرانا پڑے گا۔ اگر مردم شماری والے ’’دیگر‘‘ کے مجہول لفظ کی بجائے اس زبان کے نام کے اندراج کے لئے خانہ بنا دیتے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی؟؟؟؟ افسوس کی بات ہے کہ حکومت کو میرے گھر کے غسل خانے اور بیت الخلاء کو شمار کرنے کی اہمیت معلوم ہے لیکن وہ میری شناخت کو نہیں جاننا چاہتی۔ (ھمدردیات)