کچھ ذکر رسم الخط کا (1/2)

لکهاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر

رسم الخط سادہ لفظوں میں ان آڑی ترچھی لکیروں کا نام ہے جن کے ذریعے ہم کوئی زبان لکھتے ہیں۔ اس لئے بڑی آسانی سے آپ کچھ شکلیں مقرر کر کے ایک نیا رسم الخط ایجاد کر سکتے ہیں۔ جن دنوں میں سکول میں سکاؤٹ تھا، ردی والے سے (FROM CODES TO CAPTAINS) نامی ایک کتاب ملی۔ (سکاؤٹنگ ایک نہایت مفید مشغلہ ہے جس میں کئی اور چیزوں کے ساتھ پیدل سفر کے لئے کچھ اشارے بھی سکھائے جاتے ہیں)۔ اس کتاب میں بحری جہازوں کے اشاروں اور  خود اشارے بنانے کا بھی تذکرہ تھا۔ اس میں میری دلچسپی اتنی بڑھ گئی کہ بعد میں میں نے اشاروں میں ڈائری لکھنا شروع کی اور اس کے بعد اردو اور انگریزی کے لئے دو رسم الخط بھی ایجاد کر ڈالے جن کے حروف تھجی سیکھ کر کوئی بھی آدمی انہیں لکھ اور پڑھ سکتا تھا البتہ بعد میں وہ چیزیں چھوٹ گئیں۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ رسم الخط ایجاد کرنا چنداں مشکل کام نہیں لیکن ایسا رسم الخط ایجاد کرنا واقعی ایک مشکل کام ہے جو مقبول عام ہو جائے اور اپنے ماحول سے مطابقت رکھنے کے ساتھ ساتھ لسانی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہو۔ پرانے رسم الخط جیسے مسماری خط، ہیروغلیفی خط اور اس طرح کے دیگر خطوط میں شاید رسم الخط ہونے کی خوبی تو تھی لیکن ان کو مختلف وجوہات کی بنا پر مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔

اسی طرح جب ایک رسم الخط مقبول ہو جاتا ہے تو اس کو تبدیل کرنے سے وہ ساری نسل اپنے ماضی کے ورثے سے کٹ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب روس میں اشتراکی انقلاب آیا اور اس نے وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کی چھبیس ایسی زبانیں تھیں جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں۔ روس نے ان کا خط تبدیل کر کے کروڑوں انسانوں کو اپنے ماضی سے کاٹ دیا اور آج بھی وسطی ایشیا کی زبانیں روسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں جبکہ ازبکستان نے لاطینی رسم الخط اپنا لیا ہے۔ یہی کام ‘‘بھورے بھیڑئے’’ مصطفی کمال نے ترکی میں خلافت ختم کرنے کے بعد کیا اور اس طرح نئے رسم الخط میں تعلیم پانے والے لوگ اپنے باپ دادا کی قبروں کی تختیاں پڑھنے کے قابل بھی نہ رہے اور آج ترکی میں ترکی کے عربی رسم الخط کو دوبارہ عثمانی زبان کے نام سے پڑھا جا رہا ہے اور پرانے سرکاری ریکارڈ کو نئے رسم الخط میں لکھنے پر زر کثیر خرچ کیا جا رہا ہے۔

میں نے پہلے عرض کر دیا کہ رسم الخط میں آپ جو شکل جس حرف یا آواز کے لئے مقرر کرتے ہیں وہ اسی طرح ہو جاتی ہے مثلاً C کی ایک شکل کئی زبانوں میں مختلف آواز دیتی ہے۔ ملائی میں اس کی آواز چ کی ہے، ترکی میں ج کی، روسی میں س کی اور انگریزی میں یہ کبھی س، کبھی ک اور کبھی چ کی آواز دیتا ہے۔ 

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت بھی کچھ رسم الخط تصویری ہیں اور کچھ میں حروف ہیں۔ تصویری رسم الخط کی سب سے بڑی مثال چینی اور اس جیسی دیگر زبانوں کا رسم الخط ہے۔ اور زبانوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن چینی کے بارے میں جانتا ہوں کہ اس میں ہر شکل کی ایک مخصوص آواز ہے۔ اس لئے چینی میں کوئی نیا لفظ نہیں بنایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر پورا چین مل کر ‘’سلیم‘‘ جیسا خوبصورت اور آسان نام اس طرح نہیں لکھ سکتا کہ اسے سلیم ہی پڑھا جا سکے بلکہ زیادہ سے زیادہ ’’سا لی می‘‘ جیسا کوئی لفظ بن جائے گا جبکہ حروف والے رسکچھ ذکر رسم الخط کا (1/2)

لکهاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد آزاد کشیر

رسم الخط سادہ لفظوں میں ان آڑی ترچھی لکیروں کا نام ہے جن کے ذریعے ہم کوئی زبان لکھتے ہیں۔ اس لئے بڑی آسانی سے آپ کچھ شکلیں مقرر کر کے ایک نیا رسم الخط ایجاد کر سکتے ہیں۔ جن دنوں میں سکول میں سکاؤٹ تھا، ردی والے سے (FROM CODES TO CAPTAINS) نامی ایک کتاب ملی۔ (سکاؤٹنگ ایک نہایت مفید مشغلہ ہے جس میں کئی اور چیزوں کے ساتھ پیدل سفر کے لئے کچھ اشارے بھی سکھائے جاتے ہیں)۔ اس کتاب میں بحری جہازوں کے اشاروں اور  خود اشارے بنانے کا بھی تذکرہ تھا۔ اس میں میری دلچسپی اتنی بڑھ گئی کہ بعد میں میں نے اشاروں میں ڈائری لکھنا شروع کی اور اس کے بعد اردو اور انگریزی کے لئے دو رسم الخط بھی ایجاد کر ڈالے جن کے حروف تھجی سیکھ کر کوئی بھی آدمی انہیں لکھ اور پڑھ سکتا تھا البتہ بعد میں وہ چیزیں چھوٹ گئیں۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ رسم الخط ایجاد کرنا چنداں مشکل کام نہیں لیکن ایسا رسم الخط ایجاد کرنا واقعی ایک مشکل کام ہے جو مقبول عام ہو جائے اور اپنے ماحول سے مطابقت رکھنے کے ساتھ ساتھ لسانی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہو۔ پرانے رسم الخط جیسے مسماری خط، ہیروغلیفی خط اور اس طرح کے دیگر خطوط میں شاید رسم الخط ہونے کی خوبی تو تھی لیکن ان کو مختلف وجوہات کی بنا پر مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔

اسی طرح جب ایک رسم الخط مقبول ہو جاتا ہے تو اس کو تبدیل کرنے سے وہ ساری نسل اپنے ماضی کے ورثے سے کٹ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب روس میں اشتراکی انقلاب آیا اور اس نے وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کی چھبیس ایسی زبانیں تھیں جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں۔ روس نے ان کا خط تبدیل کر کے کروڑوں انسانوں کو اپنے ماضی سے کاٹ دیا اور آج بھی وسطی ایشیا کی زبانیں روسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں جبکہ ازبکستان نے لاطینی رسم الخط اپنا لیا ہے۔ یہی کام ‘‘بھورے بھیڑئے’’ مصطفی کمال نے ترکی میں خلافت ختم کرنے کے بعد کیا اور اس طرح نئے رسم الخط میں تعلیم پانے والے لوگ اپنے باپ دادا کی قبروں کی تختیاں پڑھنے کے قابل بھی نہ رہے اور آج ترکی میں ترکی کے عربی رسم الخط کو دوبارہ عثمانی زبان کے نام سے پڑھا جا رہا ہے اور پرانے سرکاری ریکارڈ کو نئے رسم الخط میں لکھنے پر زر کثیر خرچ کیا جا رہا ہے۔

میں نے پہلے عرض کر دیا کہ رسم الخط میں آپ جو شکل جس حرف یا آواز کے لئے مقرر کرتے ہیں وہ اسی طرح ہو جاتی ہے مثلاً C کی ایک شکل کئی زبانوں میں مختلف آواز دیتی ہے۔ ملائی میں اس کی آواز چ کی ہے، ترکی میں ج کی، روسی میں س کی اور انگریزی میں یہ کبھی س، کبھی ک اور کبھی چ کی آواز دیتا ہے۔ 

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت بھی کچھ رسم الخط تصویری ہیں اور کچھ میں حروف ہیں۔ تصویری رسم الخط کی سب سے بڑی مثال چینی اور اس جیسی دیگر زبانوں کا رسم الخط ہے۔ اور زبانوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن چینی کے بارے میں جانتا ہوں کہ اس میں ہر شکل کی ایک مخصوص آواز ہے۔ اس لئے چینی میں کوئی نیا لفظ نہیں بنایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر پورا چین مل کر ‘’سلیم‘‘ جیسا خوبصورت اور آسان نام اس طرح نہیں لکھ سکتا کہ اسے سلیم ہی پڑھا جا سکے بلکہ زیادہ سے زیادہ ’’سا لی می‘‘ جیسا کوئی لفظ بن جائے گا جبکہ حروف والے رسم الخط میں ہم حروف کو جوڑ کر نئے الفاظ آسانی سے بنا سکتے ہیں مثلا ایک چینی صدر کا نام (شی جن پنگ) ہے۔ یہ الفاظ چینی ہیں لیکن ان کو اردو میں لکھا جا سکتا ہے اگرچہ چینی کا مخصوص تلفظ اردو میں نہیں ہو سکتا۔

روسی رسم الخط لکھنے پڑھنے میں انگریزی سے آسان تر ہے کیونکہ اس میں عام طور پر آپ جیسا لکھتے ہیں ویسا ہی پڑھتے ہیں۔ اس قاعدے کے خلاف بہت کم الفاظ ہیں۔ (جاری ہے)      (ھمدردیات)م الخط میں ہم حروف کو جوڑ کر نئے الفاظ آسانی سے بنا سکتے ہیں مثلا ایک چینی صدر کا نام (شی جن پنگ) ہے۔ یہ الفاظ چینی ہیں لیکن ان کو اردو میں لکھا جا سکتا ہے اگرچہ چینی کا مخصوص تلفظ اردو میں نہیں ہو سکتا۔

روسی رسم الخط لکھنے پڑھنے میں انگریزی سے آسان تر ہے کیونکہ اس میں عام طور پر آپ جیسا لکھتے ہیں ویسا ہی پڑھتے ہیں۔ اس قاعدے کے خلاف بہت کم الفاظ ہیں۔ (جاری ہے)      (ھمدردیات)