‘‘ݜݨیا’’ رسم الخط کے بارے میں کچھ تجاویز

لکھاروۡ:مولانا عبدالخالق ہمدرد کشیر

1- اردو کے تمام حروف کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے تاکہ رسم الخط ماحول کے عین مطابق ہو اور صرف وہی حروف اجنبی لگیں جو اضافی ہوں۔ اس سے تعلیمی مقاصد میں بہت آسانی رہے گی کیونکہ طلبہ اردو کے حروف پہلے ہی سیکھ چکے ہوں گے یا ان کو شنیا سیکھتے ہوئے وہ حرف اجنبی نہیں لگیں گے۔۔۔


2- اعراب کے لئے مقرر اردو اور عربی علامتوں کو بھی برقرار رکھا جائے اور ان کو کسی اضافی مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس سے اشتباہ پیدا ہوگا جس سے زبان پڑھنے میں مزید دشواری پیدا ہوگی البتہ ضرورت کو پورا کرنے کے لئے نئی علامتیں وضع کی جائیں۔


3- ضرورت کے مطابق نئے حروف، مخارج کا لحاظ رکھتے ہوئے وضع کئے جائیں اور جو حرف جس حرف کے قریب ہو، اسی کی شکل کا دوسرا حرف مناسب تبدیلی کے ساتھ وضع کیا جائے۔ یعنی جو حرف ش کے قریب ہے اس کے لئے ش سے ملتی جلتی شکل اور جو ز کے قریب ہے اس کے لئے ز کے مشابہ حرف وعلیٰ ہذا القیاس۔


4- نئے حروف ممکنہ حد تک مفرد رکھے جائیں، مرکب نہیں، کیونکہ مرکب حروف لکھنے کے لئے زیادہ جگہ اور وقت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ مثلا چ لکھنے میں ایک حرف اور چھ دو حروف ہیں۔ اب اگر شنیا لکھنے کے لئے چھ پر اضافہ کیا جائے گا تو وہ تین حرف ہو جائیں گے۔


5- نئے حروف بنانے کے لئے دوسری ایسی زبانوں سے مدد لی جا سکتی ہے جو پہلے سے کمپیوٹر پر لکھی جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے سندھی اور پشتو شنیا کی مدد کر سکتی ہیں کیونکہ سندھی میں مرکب آواز والے حروف جیسے بھ، پھ ، کھ اور چھ وغیرہ بھی مفرد لکھے جاتے ہیں اور مرکب آواز کی ضرورت کو نقطوں کی تعداد یا ان کے لکھنے کے طریقے (افقی، عمودی، اوپر/ نیچے) سے پورا کیا گیا ہے۔


6- متفقہ حروف کا ایک معیاری کی بورڈ بنا کر اسے رواج دیا جائے تاکہ اسے ونڈوز/ انڈرویڈ وغیرہ نظاموں میں استعمال کیا جا سکے۔ اس وقت چونکہ سماجی ذرائع ابلاغ نہایت وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہے ہیں اس لئے ان کے ذریعے شنیا تحریر کو سکولوں میں تعلیم سے بھی زیادہ جلدی رواج مل سکتا ہے۔


7- عام طور پر زبان کو عربی/ اردو وغیرہ کی طرح بغیر علامتوں کے لکھا جائے لیکن علامتوں کا ایک ایسا نظام ضرور وضع کیا جانا چاہئے جو بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے جیسے اردو یا عربی میں کسی لفظ کا درست تلفظ بتانے لے لئے اس پر اعراب لگائے جاتے ہیں۔


8- شنیا لکھنے کے لئے عام رسم الخط نستعلیق ہونا چاہئے جس میں عام طور پر اردو بھی لکھی جاتی ہے۔ اس میں کوئی ایسا حرف شامل نہ کیا جائے جو نستعلیق میں نہ لکھا جا سکتا ہو۔ مثال کے طور پر سندھی رسم الخط کی مجبوری ہے کہ اسے عربی نسخ میں ہی لکھا جائے کیونکہ نستعلیق میں لکھنے سے اس کے کچھ حروف کی شکل بگڑ جاتی ہے اور شکل بدلنے سے ان کا تلفظ بھی بدل جاتا ہے۔


9-  شنیا زبان کے کئی لہجے ہیں۔ اس لئے الفاظ کی ادائیگی یا تحریر میں فرق ہو سکتا ہے لیکن رسم الخط ایسا ہونا چاہئے جو سب لہجوں کی ضروریات کو پورا کر سکے کیونکہ رسم الخط کے کسی ایک لہجے کے لئے مخصوص ہونے سے دوسرے لہجے کے لئے نئے حروف کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے شنیا کے ماہرین کا تعاون بہتر نتائج دے سکتا ہے۔


10- دنیا میں لکھی جانے والی زبانوں کے لئے سینکڑوں رسم الخط رائج ہیں جن میں کچھ خوبصورت اور کچھ بھدے ہیں (یا دیکھنے والے کو ایسا لگتا ہے)۔ اس لئے شنیا کا رسم الخط ایک خوبصورت رسم الخط ہونا چاہئے جس کا جمالیاتی پہلو بھی پیش نظر رہے جبکہ یہ پہلو عربی اور اس سے وجود میں آنے والے دیگر رسوم الخط میں نہایت واضح ہے۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے خطاطی کے نمونوں کا موازنہ کر کہ اس بات کا یقین کیا جا سکتا ہے کہ عربی خطاطی کے جمالیاتی پہلو کا کوئی جواب نہیں۔ 


نوٹ: اگلی تحریر ان شاء اللہ شنیا حروف تہجی ے بارے میں ہوگی۔ (ھمدردیات)